لاہور کے سفاری پارک میں شیر ایک نوجوان کھا گئے؟
سفاری پارک لاہور کے ڈائریکٹر محمد شفقت نےبتایا کہ صبح کے وقت سفاری پارک کے عقب میں واقع گاؤں کے لوگ بلال نامی ایک نوجوان کی تلاش میں سفاری پارک پہنچے۔ان کی مدد کے لیے جب پارک کا عملہ سفاری پارک میں موجود شیروں کو بند کرنے گیا تو ان کے پنجروں کے قریب لڑکے کی باقیات ملیں جن میں کپڑے اور ہڈیاں موجود تھیں۔
محمد شفقت کے مطابق ابھی انھیں اس بات کا علم نہیں ہے کہ شیروں کا نشانہ بننے والا محمد بلال کس طرح اور کس وجہ سے اندر آیا اور ان کے مطابق اس بارے میں ابھی بات کرنا قبل از وقت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سفاری پارک میں اس وقت 39 شیر موجود ہیں اور یہ علم نہیں ہے کہ کس شیر نے اس لڑکے پر حملہ کیا۔محمد بلال کے لواحقین کے مطابق بلال کی عمر تقریباً سترہ، اٹھارہ برس تھی۔سفاری پارک کے قریب گاؤں کے لوگ اکثر و بیشتر وہاں گھاس کاٹنے کے لیے جاتے رہتے ہیں
محمد بلال کے بارے میں کہا گیا کہ وہ شام کو گھر سے نکلے مگر واپس نہ آئے۔ ان کے گھر والوں کا دعویٰ ہے کہ جب انھوں نے سفاری پارک کی انتظامیہ سے رابطہ کیا تو انھوں نے رات کے وقت یہ کہتے ہوئے مدد کرنے سے انکار کر دیا کہ اس وقت پارک میں جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔لواحقین کے مطابق صبح کے وقت جب پارک میں عملے نے شیروں کو بند کرنے کے بعد بلال کی تلاش شروع کی تو انھیں اس کے کپڑے اور ہڈیاں ملیں۔’آج صبح جب سفاری پارک کے ملازمین شیروں کو ان کے میدان میں خوراک ڈال رہے تھے تب انہیں انسانی اعضا نظر آئے جس پر انہوں نے انتظامیہ کو اطلاع دی اور پولیس کو بھی موقع پر بلا لیا گیا۔‘
گھر والوں کے مطابق بلال پیر کی شام گھر سے گھاس کاٹنے نکلے تھے لیکن واپس نہیں آئے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہاں موجود سی سی ٹی وی کیمروں کی گذشتہ دنوں کی فوٹیج کو بھی چیک کیا جائے گا، جس کی مدد سے اس معاملہ کی تہہ تک پہنچنے میں مدد ملے گی، تاہم پولیس اس معاملے کی مزید تفتیش کر رہی ہے۔جب اس سلسلے میں رائے ونڈ پولیس سے رابطہ کیا گیا تو وہاں کے محرر نے بتایا کہ نوجوان دو دن سے غائب تھا اور معاملے کی تحقیق جاری ہے۔سفاری پارک میں شیروں کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں۔ اس پارک میں آنے والوں کے لیے انہیں دیکھنے کا ایک طریقہ کار ہے جس میں انہیں ایک بند بس میں بٹھا کر اس میدان میں لے جایا جاتا ہے جہاں شیر رکھے گئے ہیں۔
ان میدانوں میں شیر کھلے پھرتے ہیں، جن کے گرد لوہے کے قدآور جنگلوں کا حصار ہے. میدان میں بس ایک بڑے دروازے کے ذریعے داخل ہوتی ہے اور بس کے اندر داخل ہوتے ہی لوہے کا اونچا لمبا، بھاری بھرکم دروازہ بند کر دیا جاتا ہے۔