دلی فسادات: حقیقت سے پردہ اُٹھتا ہے
دہشت گردی کے اس منظر کو بیان کرنا بہت مشکل ہے۔لیکن چاروں طرف پھیلی تباہی دل کو بہت گہرائی تک چیرتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ یہاں کی روزمرہ کی زندگی بدل گئی تھی۔ لیکن جو سامان بکھرا ہوا تھا یا جیسے پھینک دیا گیا تھا اس پر کوئی اپنا حق نہیں جتا رہا تھا۔
یہ تباہ شدہ سامان درحقیقت ایک ایسی دنیا کے خاموش مگر کبھی نہ مکرنے والے ایسے گواہ تھے جو اب مکمل طور پر برباد ہو چکی ہے۔ یہ بکھری ہوئی، ٹوٹی پھوٹی چیزیں اپنے انداز میں خود پر گزری قیامت کی داستان بیان کر رہی تھیں۔
میں جنوبی دلی کے جس علاقے میں رہتی ہوں وہاں سے شمالی مشرقی دلی کا وہ علاقہ قریب ہو کر بھی بہت دور ہے جہاں گذشتہ ماہ ہولناک فسادات کی آگ بھڑکی تھی۔ میں نے اٹھتا ہوا دھواں دیکھا تھا، دہکتے ہوئے شعلے دیکھے تھے اور ابلتا ہوا خون بھی۔ میں نے گلیوں میں ٹوٹ کر بکھرے ہوئے شیشے تصاویر میں دیکھے تھے۔
میں نے کہیں یہ بھی پڑھا تھا کہ اس علاقے کے شیو وہار محلے کے بعض لوگوں نے ان کبوتروں کی گردنیں بھی مروڑ دی تھیں جنھیں ایک شخص نے پال رکھا تھا۔
کسی جگہ سے دوسری جگہ تک کا فاصلہ دراصل وقت کا وہ فاصلہ ہے جسے ہم کسی مقام تک پہنچنے میں طے کرتے ہیں۔ شہر کو اسی طرح تو منقسم کیا جاتا ہے۔ متمول علاقے، مڈل کلاس محلے، مزدور کالونی اور غریبوں کی بستیاں۔ ان کے درمیان جتنی دوری ہوتی ہے، وہیں ان محلوں کے باشندوں کے درمیان فرق پیدا کرتی ہے۔
مجھے شمالی مشرقی دلی کے فساد زدہ علاقوں تک پہنچنے میں تقریبا 30 منٹ لگے۔ یہ وہی علاقہ ہے جسے گذشتہ دنوں بندوقوں، بموں، لاٹھیوں، لوہے کی سلاخوں، پتھروں اور تلواروں سے تباہ و برباد کردیا گیا تھا۔ ’پوسٹ ٹروتھ‘ دور والی اس دنیا میں آپ یہ کیسے معلوم کرسکتے ہیں کہ تشدد کی شروعات کہاں سے ہوئی تھی خاص طور سے تب جب ثبوتوں کے طور پر، ٹوٹی پھوٹی کھوپڑیاں، سیاہی میں لپٹی دیواریں اور ڈھیر سارا دھواں بچا ہو۔
میں کوئی فورینزک ماہر نہیں اور نہ ہی یہ کوئی تفتیش ہے کہ فسادات میں ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کی گنتی کی جائے بلکہ ایک چھوٹی سی کوشش ہے کہ اس جگہ کے مناظر، فسادات میں برباد ہو چکے محلوں کی داستان، وہاں کے بکھرے ہوئے سامان کی لفظی تصویر پیش کی جائے۔ یہ وہ سامان ہے جس تباہی پھیلانے والوں نے یا تو بخش دیا یا پھر یہ اتفاق سے بچ گیا۔
مثال کے طور پر ایک جلی ہوئی کتاب کے اوراق۔ اس کتاب کے اوراق کناروں پر سے جلے ہوئے تھے۔ اور یہ کتاب فسادات زدہ مصطفی آباد علاقے کے ایک سکول کے باہر پڑی ہوئی تھی۔سڑک کی دوسری جانب ان خواتین کی تصاویر بنائی گئی تھیں جو شہریت کے متنازع قانون سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت میں احتجاج میں شامل تھیں۔
فسادات کے بعد ان گلیوں میں پڑا سازو سامان دراصل اپنی اداسی بیان کررہا تھا۔ اپنی تنہائی کے قصے سنا رہا تھا۔ یہ وہ اشارے تھے جو بتا رہے تھے کہ ان محلوں کی گلیوں سے بربادی کا کتنا بڑا طوفان گزرا ہے۔یہ اس سازوسامان کی کہانی ہے جو دراصل گزرے ہوئے وقت کی اور یہاں ہوئے ہولناک تشدد کا چشم دید گواہ ہے۔ اس کی آنکھ اور کان ہے۔
فساد زدہ شمالی مشرقی دلی کی داستان حقیقت اور فسانے کو ملا کر بنائی گئی ایک کہانی ہے جس کے درمیان یہ بکھرا ہوا سازوسامان ہی سچ کی مشعل اٹھائے ہوئے ہے۔
ثبوت نمبر 1: سگنیچر برجبرباد ہو چکے شہر کے اس حصے کی جانب چلیں تو ایک پل آتا ہے۔ 2018 میں دلی کے وزیراعلی اروند کیجریوال نے اس کا افتتاح کیا تھا۔ شہر کی اہم شناخت بن چکے اس پل کے بارے میں دعویٰ تو یہ کیا گیا تھا کہ یہ شمالی مشرقی دلی کو شہر کے ديگر علاقوں سے قریب لانے میں مدد کرے گا۔
ویسے تو دلی کے اندرونی علاقوں تک پہنچنے میں 45 منٹ لگ جاتے ہیں لیکن سگنیچر برج کے بن جانے کے بعد یہ فاصلہ 10 منٹ میں طے ہوجاتا ہے۔ کیجریوال نے دعویٰ تو یہ بھی کہا تھا کہ یہ پل دلی میں آلودگی سے نمٹنے میں مددگار ثابت ہوگا اور لوگوں کا ایندھن بھی بچائے گا لیکن 24 فروری کو یہ پل یہاں تک پہنچنے میں لگنے والے وقت کو کم کرنے میں ناکام رہا۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس اس جگہ کبھی نہیں پہنچی جہاں فسادیوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ مقامی لوگوں نے پولیس کو بار بار فون کیے لیکن ان کو جواب تک موصول نہیں ہوئے۔
سگنیچر برج سے آلودگی کا بھی مقابلہ نہیں کیا جا سکا۔ پل کے دوسری جانب بسے شہر میں جلے ہوئے لوگوں، لکڑیوں، اور کاغذوں کی بو جوں کی توں ہے۔
اخباروں کی کترنیں کہتی ہیں کہ سگنیچر برج، قطب منار سے دوگنا اونچا ہے۔ جب میں نے اس پل کو پار کیا تو دیکھا دریائے جمنا یہاں وہاں پیوند کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان میں ندیوں کو توڑنے اور موڑنے کی قوت ہے۔
میرے ڈرائیور نے مجھ سے کہا کہ یہاں بہت سے لوگ گھومنے آتے ہیں حالانکہ میں تو کبھی اس بارے میں نہیں سنا تھا لیکن سر اٹھا کر پل کی اونچائی کا اندازہ لگانے کی کوشش ضرور کی۔
یہ دلی کا پہلا کیبل برج ہے جو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ نمستے کرنے کا اشارہ ہے۔ میڈیا میں شائع ہونے والی خبریں کہتی ہیں کہ اس پل کے تمام فوائد میں سب سے اہم یہ ہے کہ ’سگنیچر برج سے لوگ شہر کے خوبصورت نظاروں کا دیدار کر سکیں گے ٹھیک اسی طرح جس طرح آئیفل ٹاور پر چڑھ کر پیرس کی خوبصورتی کا لطف اٹھاتے ہیں۔‘حالانکہ میں تو کبھی آئیفل ٹاور دیکھنے نہیں گئی۔
ثبوت نمبر 2: ایک سائن بورڈ جس پر لکھا تھا بھجن پورہوہ سائن بورڈ اس بات کا اشارہ تھا کہ ہم شدت پسندی والے حصے میں داخل ہو چکے ہیں۔ دوپہر کے بعد کا وقت ہے۔ گلیوں میں بہت کم لوگ نظر آ رہے ہیں۔
ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کے مطابق شمالی مشرقی دلی کی آبادی میں بہت بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہاں ہندوؤں کی آبادی زیادہ ہوتی تھی اب یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور کم سے کم اس علاقے میں تو ہندو اقلیت میں آ چکے ہیں۔
ثبوت نمبر 3: جلا ہوا پیٹرول پمپ بھی ایک سنگِ میل ہےدلی فسادات کے دوران ایک پیٹرول پمپ کو نذر آتش کرنے کی تصاویر وائرل ہوئیں۔ میں نے وہ خبریں پڑھی تھیں۔ کسی بھی چیز کے وجود کا احساس کرنے کے لیے آپ کو اسے ہاتھوں میں پکڑنا ہوتا ہے لیکن پیٹرول پمپ کو تو میں اپنے ہاتھوں سے نہیں پکڑ سکتی۔ میں صرف اپنی آنکھوں سے ہی یہ محسوس کرسکتی تھی کہ اسے کس ہولناک توڑپھوڑ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
اس کا احساس آگ کے حوالے کر دیے گئے پٹرول پمپ پر کھڑی جلی ہوئی کاروں، آگ اور دھویں سے کالی ہوئی دیواروں اور کانوں کو چیر دینے والے سناٹے سے ہوتا ہے۔ یہ جگہ کسی زمانے میں ایندھن کا گودام ہوا کرتی تھی۔
ثبوت نمبر4: ایک مزار یہ مزار چاند باغ کے قریب مرکزی سڑک پر واقع ہے۔ یہ مقبرہ تقسیم کی نشانی بن چکا ہے۔ مزار کے باہر دو جھلسی ہوئی موٹرسائیکلوں کے ڈھانچے پڑے ہوئے ہیں۔ مزار کا جھاڑ فانوس سیاہ پڑ چکا ہے اور چھت کا حال بھی وہی ہے۔
تشدد کے تین دن بعد اس مزار کی دیکھ بھال کرنے والوں نے دیواروں، فرش اور جالی نما دروازوں پر جمع راکھ کو دھویا تھا۔ میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ جب رات کا وقت ہو گا تو اس فانوس کو روشن کرنے کے لیے کتنے بلبوں کی ضرورت ہو گی؟
سیاہ کے معنی ہوتے ہیں بے رنگ، یہ ساری روشنی کو جذب کرتا ہے۔ مقبرے اس دنیا سے گزر چکے کسی شخص کا ٹھکانہ ہے۔ آپ مقبروں میں رہنے والے مردہ لوگوں کو بے دخل نہیں کر سکتے۔اس مقبرے کو اب پھر سب کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ معراج پہلوان اس کے اندر بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے بتایا، ’میں گذشتہ 37 برسوں سے یہاں رہ رہا ہوں۔ یہ سید چاند بابا کا مقبرہ ہے۔ یہاں سب کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔‘
میں سوچنے لگی کہ فسادات کے دوران کتنے لوگ اس مزار کے دروازے سے گزرے ہوں گے، انھوں نے دعاؤں میں کیا مانگا ہو گا۔ کیا انھوں نے یہ جنگ ختم ہونے کی دعائیں مانگی ہوں گی۔‘
ثبوت نمبر 5: ایک پرسمرکزی سڑک پر ملبے کا جو ڈھیر تھا اس پر ایک سرخ رنگ کا پرس پڑا ہوا تھا۔ اس کے موتی کے بٹن تھے۔ میں نے اسے نہیں اٹھایا۔ اس کے کناریاں سیاہ لڑیوں سے بنی ہوئی تھیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ پرس ملبے کے اس ڈھیر پر کیسے پہنچا۔ واضح تھا کہ فسادیوں نے اسے بخش دیا تھا اور کسی نے اس کی ملکیت کا دعویٰ بھی نہیں کیا تھا۔
گلیوں میں ٹوٹے ہوئے شیشے بکھرے تھے۔ سڑک کے ساتھ ساتھ ایک دیوار بھی تھی۔ اس دیوار پر بہت سے نقوش بنے ہوئے تھے۔ کوڑے دان پر سماجی خدمت کا ایک پیغام تھا۔ ڈینگی کو شکست دینے کی اپیل کی گئی تھی۔ ہندوستان کو صاف ستھرا رکھنے کی گزارش بھی کی گئی تھی۔
دیوار پر ایک تنبیہ بھی تھی کہ آپ کیمرے کی نگرانی میں ہیں۔ سڑک کو دو حصوں کو تقیسم کرنے والے میٹرو ریل کے کھمبوں اور فسادات کے بعد بند دکانوں کے شٹر پر کوئلے سے لکھا ہوا تھا ‘نو این آر سی اور نو سی اے اے’ لیکن نشے سے نجات دلانے والے سرکاری مرکز اور ہیلپ لائن کا نمبر بھی آپ صاف پڑھ سکتے تھے۔
دلی کا نیو سلیم پور علاقہ ملک کے ان 272 اضلاع میں سے ایک ہے جہاں منشیات کے شکار افراد کی ایک بڑی تعداد ہے اور اس برس حکومت نے ڈرگ فری انڈیا کے نام سے جو ایک قومی مہم شروع کی ہے اس میں نیو سلیم پور کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
نیو سلیم پور شمال مشرقی دلی کی ایک مسلم اکثریت والی کالونی ہے۔ اس علاقے میں ہر ایک کلومیٹر میں تقریباً 30 ہزار افراد رہتے ہیں۔ یہ کوئی متمول علاقہ نہیں ہے لیکن یہاں کی اونچی عمارتوں کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ سانس لینے کی جدوجہد میں ایک دوسرے سے مقابلہ کر رہی ہوں۔
یہاں آپ کو نہ تو کوئی ہوٹل دکھائی دے گا نہ کیفے اور نہ ہی کوئی ریستوران۔ بس ڈومینوز پیزا کی تین دکانیں نظر آئیں گی۔ ان میں سے ایک تو اسی دن کھولی گئی تھی جب میں نیو سلیم پور گئی۔
نیو سلیم پور کے مغرب میں دریائے جمنا ہے تو مشرق میں اترپردیش کا ضلع غازی آباد۔ شمال مشرقی دلی ملک کا سب سے زیادہ گنجان آباد علاقہ ہے اور یہ ملک کے غریب ترین اضلاع میں سے ایک ہے۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق دلی کے تمام اضلاع میں سب سے زیادہ مسلم آبادی یہاں رہتی ہے اور یہاں شرح تعلیم دلی کے سب علاقوں سے کم ہے۔
ایک کونے میں جلا ہوا مکان جیسے کسی کا انتظار کر رہا تھا۔ ہم ٹوٹے ہوئے شیشوں پر سے چل کر وہاں پہنچے۔
میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ اس علاقے میں حالات معمول پر آ چکے ہیں مگر ہر جگہ ٹوٹے ہوئے شیشے بکھرے ہوئے تھے اور گلیوں میں جلے ہوئے مکانوں کی بو نے گویا ہمیشہ کے لیے یہاں اپنا ڈیرہ جما لیا ہے۔
ایک گلی کے باہر ایک کتا بیٹھا ہوا تھا۔ آس پاس بکھری سیاہی کی وجہ سے اس کا رنگ بھی سیاہی مائل ہو گیا تھا۔
یہ سیاہی صرف اس کتے تک ہی محدود نہیں بلکہ دلی کے اس علاقے پر ایک عجیب سی سیاہی مل دی گئی ہے۔ مکانات کا بیرونی حصہ ہو یا اندرونی حصے یا پھر دکانوں کے شٹر اور دیواریں سب کچھ ایک کینوس کی طرح ہو گئی تھیں جس پر کسی نے موٹے حروف میں لکھ دیا تھا ’نفرت‘۔
ان جلے ہوئے مکانات کو دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ جیسے قیامت کا منظر ہو لیکن اگر قیامت آئی تو خدا کہاں تھا؟
نیو سلیم پور میں دھرنے کے لیے جمع ہونے والی خواتین کو یقین ہے کہ خدا انصاف ضرور کرے گا۔ یہ سب اپنے آپ کو جعفرآباد اور سلیم پور کے مظاہرین کہتے ہیں۔ تقریباً دو ماہ سے یہ سب افراد سڑک کے کنارے خاموشی سے مظاہرہ کر رہے تھے۔
ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت شہریت کے قانون سی اے اے اور این آر سی کی تجویز کو واپس لے۔ شاہین باغ کی تحریک سے متاثر ہو کر ملک کے متعدد حصوں میں اس نوعیت کے مظاہرے ہو رہے ہیں لیکن جہاں شاہین باغ کو شہرت مل رہی ہے وہیں لوگ ان سارے دھرنوں سے بےخبر ہیں۔
دلت رہنما اور بھیم آرمی پارٹی کے سربراہ چندرشیکھر آزاد نے 23 فروری کو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف بھارت میں ہڑتال کا مطالبہ کیا تھا جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ حکومتیں ملازمتوں اور ترقیوں میں ریزرویشن دینے کے پابند نہیں ہیں۔
اس دن یہاں دھرنے پر بیٹھی خواتین نے فیصلہ کیا کہ وہ جعفرآباد میٹرو سٹیشن کی جانب مارچ کریں گی اور میٹرو لائن کے نیچے اس سڑک کو بند کریں گی جو موجپور اور جمنا وہار کو ملاتی ہے۔ یہ خواتین مشعل بردار جلوس نکالنا چاہتی تھیں۔ اس جلوس میں ویلکم کالونی، جنتا کالونی، گوکلپوری، موجپور، بدر پور اور شیو وہار کی خواتین بھی شامل ہو گئیں اور پھر اس مظاہرے کو منتشر کرنے کے لیے پولیس وہاں پہنچ گئی۔
23 فروری کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما کپل مشرا نے مطالبہ کیا کہ ان خواتین کو سڑک سے ہٹنا چاہیے یا انھیں زبردستی ہٹایا جانا چاہیے۔ سنیچر کے روز سٹیج خالی تھا لیکن احتجاج جاری رہا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ وہیں ڈٹی رہیں گی۔
ثبوت نمبر 6: ایک جنازہگیبریئل گارسیا مارکیز نے اپنے ناول، ‘دی آٹمن آف دی پیٹریارک’ کے صفحہ نمبر 43 پر لکھا ہے ‘ہمیں تو معلوم ہی تھا کہ ان کی موت کوئی بھی آخری ثبوت نہیں تھا۔ کیونکہ ہر سچ کے چہرے کے پیچھے ایک اور سچ چھپا ہوا ہوتا ہے۔‘
یہ جگہ ایسی معلوم ہوتی تھی کہ گویا یہاں بربادی کبھی ختم نہیں ہو گی۔ یہاں تک کہ آسمان بھی سیاہ پڑ چکا تھا۔ جعفرآباد کی گلی نمبر 37 سے ایک جنازہ نکل رہا تھا۔ میں نے اس میں شریک ہونے کا فیصلہ کیا۔ یہ جنازہ محمد عرفان کا تھا جس کا مردہ جسم سفید کفن میں لپٹا ہوا تھا۔
عرفان اس رات اپنے دو بچوں کے لیے دودھ لینے باہر آیا تھا۔ یہ وہی دن تھا جب قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول متاثرہ علاقوں میں گھوم رہے تھے اور ان کے اس دورے کے بعد میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ فسادات کے بعد صورتحال ‘معمول پر‘ ہے۔ اسی رات مشتعل ہجوم نے محمد عرفان کے گھر سے صرف 300 میٹر کے فاصلے پر انھیں مار ڈالا۔ ان کی کھوپڑی پر گہرے زخم صاف دکھائی دے رہے تھے۔
ثبوت نمبر7: کھلا تابوتمجھے علم تھا کہ دو دنوں میں مجھے اسی طرح کے جنازے دیکھنے کو ملیں گے۔ جب مردہ گھروں سے لاشوں کو ان کے اہلخانہ کے حوالے کیا جائے گا جس کے بعد یہ جنازے کی شکل میں اپنے آخری سفر پر قبرستان کے لیے روانہ ہوں گے۔ محمد عرفان یہاں ایک کارخانے میں سکول کے بیگ کی سلائی کرتا تھا اور اس کی عمر محض 27 برس تھی۔
اس سے قبل کہ آپ مصطفیٰ آباد کی تنگ گلیوں میں داخل ہوں آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ یہاں ایک بہت ہی خوفناک حادثہ پیش آیا ہے۔
سڑک کی دوسری جانب ایک بیکری کو جلا دیا گیا تھا۔ اس کا نام کیا تھا پتا لگانا مشکل تھا کیونکہ دکان کے سائن بورڈ سے ایک ہی حرف لٹکا ہوا تھا اور باقی کے حروف اسی طرح ٹوٹ کر گر گئے تھے جیسے انسانوں کی لاشیں۔
لوگوں نے بتایا کہ ایک شخص کے کنبے کو تو تدفین کرنے کے لیے صرف اس کی ٹانگ دی گئی تھی۔
مجھے بتایا گیا تھا کہ میں اس وقت تک نالے کے کنارے چلتی رہوں جب تک کہ میں ایک چھوٹے سے پل تک نہ پہنچ جاؤں جس کے پیچھے مجھے ایک اور نالہ ملے گا اور وہاں گلی نمبر چار میں مجھے جانا تھا۔
اس گلی میں رہنے والے 40 سالہ عقیل احمد کو اس وقت ہلاک کر دیا گیا جب وہ غازی آباد کے علاقے لونی میں واقع اپنی سسرال سے مصطفیٰ آباد میں اپنے گھر واپس لوٹ رہے تھے۔ کاریں دھونے کا کام کرنے والے عقیل کا جنازہ کھلے تابوت میں رکھا تھا۔
میں نے اسے پہچان لیا۔ وہ خان مارکیٹ کی پارکنگ میں کام کرتا تھا۔ وہ ان تمام گمنام لوگوں میں سے ایک تھا جن سے ہم روزانہ ملتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہیں اور کہاں رہتے ہیں اور ان کا نام کیا ہے اور پھر اچانک ایک دن آپ ان کے جنازے میں شامل ہو جاتے ہیں۔
عقیل کے اہل خانہ کو جی ٹی بی ہسپتال میں اس کی لاش ان لوگوں کے درمیان ملی تھی جن کی شناخت نہیں ہو سکی تھی۔ وہ تقریباً تین روز سے لاپتہ تھا۔
شمال مشرقی دلی کے ان علاقوں میں صرف شیشہ ہی نہیں ٹوٹ کر بکھرا تھا۔ شیشے کے ٹکڑوں، کسی کے حق جتانے سے محروم بیگ، جلی ہوئی موٹر سائیکلوں، کاروں کے سیاہ ڈھانچوں، دھویں سے کالے پڑ چکے مکانوں کے درمیان جو چيزيں تباہ ہو گئی تھیں وہ تھی امید اور بھروسہ۔
کہتے ہیں کہ تاریخ خود کو دہراتی ہے۔ دلی کا یہ علاقہ جو اب تاریکی کا مرکز بن چکا ہے وہاں کوڑے کے ڈھیر سے اپنے مطلب کا سامان ڈھونڈنے کے لیے مردہ خور متحرک ہو چکے ہیں۔
ان دیکھے ثبوتآپ پرندوں کے ٹوٹے ہوئے پروں، مروڑی گئی گردنوں والے پرندوں کی بو کو کیسے بیان کرتے ہیں، جلی ہوئی کتابوں یا ناامیدی کو کیسے بیان کر سکتے ہیں۔ کیا گنے نہ جانے والے سامان مثال کے طور پر پرانے خطوط، دستاویزا اور پرانی تصویروں کے البم کا کوئی معاوضہ ہو سکتا ہے؟
اور پھر وہ نقصان جس کو ناپا نہیں جا سکتا، اس کا کیا؟جیسے کہ تکلیف، تشدد، محبت، امید اور انتظار۔ ایسے جذبات کا اپنا الگ بوجھ ہوتا ہے جو کسی مکان کے وزن سے بھی بھاری ہو سکتا ہے۔
کسی نے جوتے کی دکان کے بارے میں بتایا جسے لوٹ لیا گیا تھا۔ سب کے سب اپنے ہاتھوں میں چمکدار جوتے لے کر بھاگ رہے تھے۔ میں نے پڑھا کہ ایک قرآن اور ایک مسجد کو بھی جلایا گیا تھا۔ میں نے اس شخص کے بارے میں بھی پڑھا جو کئی دنوں سے لاپتہ تھا اور بعد میں جس کے نام پر اس کی تدفین کے لیے ایک ٹوپی اس کے اہل خانہ کے حوالے کر دی گئی۔
میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک شخص کی لاش کی شناخت اس انگوٹھی سے ہوئی تھی جو اس نے پہن رکھی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کے خاندان نے اس انگوٹھی کو اس کی نشانی کے طور پر اپنے پاس رکھا تھا یا نہیں۔
درد چاروں طرف پھیلا ہوا تھا۔ غائب بھی اور واضح بھی۔
لوگوں کے ساتھ بات چیت سے اکثر یہ معلوم ہوتا کہ فسادات کے دوران لوگوں نے اور کیا کیا کھویا۔ مثال کے طورپر رخسار نامی نوجوان لڑکی کا گلابی لہنگا۔ اس لڑکی کی شادی تین مارچ کو مصطفیٰ آباد کے الہند ہسپتال میں ہوئی تھی۔ دلہا اور دلہن 26 فروری کو اس وقت اس ہسپتال میں آئے تھے جب وہ گووند وہار میں مشتعل ہجوم سے بچنے کے لیے بھاگے تھے۔
رخسار کی شادی ایک ایسے شخص سے پرانے کپڑوں میں ہوئی تھی جس سے اس کی شادی طے نہیں ہوئی تھی۔ جس لڑکے سے شادی طے ہوئی تھی اس نے یہ کہہ کر شادی کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ دلہن کا گھر فساد میں جل گیا تو کیا مجھے تو دھوم دھام سے شادی کرنی ہے۔
اس کے بعد رخسار کے کزن نے یکم مارچ کو اس سے شادی کرنے پر رضامندی ظاہر کردی۔ لوگوں نے اس کی شادی کے لیے بالیاں، پازیب اور چوڑیاں خریدنے کے لیے کچھ رقم جمع کی اور الہند ہسپتال کی ایک ڈاکٹر نے رخسار کو شادی کا جوڑا تحفے میں دیا۔ایسے حالات میں آپ یہاں کے پورے ماحول کو کیسے بیان کر سکتے ہیں۔
یہاں بدبو اور سڑاند، سنسان گلیاں، بند کھڑکیاں سب فسادات کی تباہی کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہیں۔ یہ وہ جذبات ہیں، ایسے مناظر ہیں جن کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہن نہ جانے کب تک ان گلیوں میں بسیرا کیے رہیں گے۔
کیا کوئی ان فسادات میں لاپتہ ہونے والی اور پھر مل جانے والی چیزوں کا میوزیم بنائے گا۔ وہ تمام چیزیں جن کی گنتی کی جا سکتی ہے اور جن کی گنتی نہیں کی جا سکتی ان سب کو ملا کر ایک ایسا ٹھکانہ تیار کیا جانا چاہیے جو یہاں کے باشندوں کو خراج تحسین کی طرح ہو جنھوں نے ان فسادات میں تقریباً اپنا سب کچھ گنوا دیا ہے۔
نہ ختم ہونے والے ثبوتگلیوں میں بسی کانوں کو چیرنے والی خاموشی، ایک جلی ہوئی کتاب جس کو میں پڑھتی تو نہیں لیکن اس کی تصویر کھینچ لیتی ہوں۔ مڑے ہوئے پنکھے، جلا ہوا فانوس اور بند دکانیں۔
یہاں کچھ بھی معمول پر نہیں ہے۔ مظالم کے ثبوت یہاں عام ہیں۔ لوگ اندھیری گلیوں اور ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر ان پڑوسیوں سے بچ بچ کر نکلتے ہیں جو ان کے خون کے پیاسے ہو گئے تھے۔ یہ بےحد خوفناک دنیا ہے۔ شیووہار کے قریب واقع پارکنگ میں کھڑی 170 گاڑیاں جلا دی گئی تھیں۔ یہاں کئی لوگ بکھرے ہوئے شیشوں سے بچ کر نکل رہے تھے۔ وہ گاڑیوں کے بونٹ پر چڑھ رہے تھے اور اس منظر کی تصاویر کھینچ رہے تھے جو کسی دوزخ سے کم نہیں تھا۔
آس پاس کے لوگ اپنی گاڑیاں یہاں اس لیے کھڑی کرتے تھے کیونکہ تنگ گلیوں میں کاروں کا داخل ہونا مشکل تھا۔ وہ گاڑی کھڑی کرنے کے لیے ہر ماہ ہزار یا پندرہ سو روپے ادا کرتے ہیں۔
آپ جس گلی سے مصطفیٰ آباد سے شیو وہار میں داخل ہوتے ہیں اسے لوگ سرحد کہتے ہیں اور کوئی بھی سرحد مکمل طور پر بند نہیں ہوتی۔ آنے جانے کے خفیہ راستے ہوتے ہی ہیں۔ لوگ ان کا فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن سرحد کے قریب کا علاقہ ہمیشہ مشکلات کے گھیرے میں رہتا ہے۔ آپ کے گھر پر ہمیشہ خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔
گندھک کی بدبو اس علاقے کا راستہ بتانے کا کام کرتی ہے۔ یہاں اس بو کو بیان کرنے سے آسان اسے پہچان لینا ہے۔ یہاں شیوپوری میں گندھک کی وہ بدبو ہر جگہ پھیلی ہوئی تھی۔ یہ ایک بہت تیز بدبو تھی جو نہ تو کم ہونے کو تیار تھی اور نہ ہی ختم ہونے پر راضی۔
ایک شخص آیا اور اس نے جلے ہوئے مکان کی سیڑھیوں پر بیٹھے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا۔ راکھ میں لپٹی تار پرکبوتر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ شاید ایسے چہروں کی تلاش میں تھے جو تھوڑے جانے پہچانے تو لگیں۔
اس شخص نے مجھ سے کہا، ’سیڑھیوں پر بیٹھے شخص کا نام ستیش ہے۔ یہ اس کا نمبر ہے۔ فسادیوں نے اس کے دو مکانات کو نذر آتش کر دیا۔ تم اس سے بات کر سکتی ہو۔‘
واپسی پر میری نظر ایک اور نالے پر پڑی۔ اس علاقے سے کئی نالے گزرتے ہیں۔ عقیل کے جنازے کے دوران ایک شخص مجھے بتارہا تھا کہ گوکلپوری کے اس نالے سے کس طرح لاشیں نکالی گئیں۔
اور آخر میں جو تصویر بنتی ہے وہ بہت ہی تاریک ہے جو تاریک گلیوں میں جلے ہوئے انسانوں، راکھ ہو چکی تاروں اور سب کچھ جل جانے کی بو سے بھری ہے۔ یہاں وہ نالے ہیں جو شاید اپنے اندر پھینکی گئی لاشوں کو پی گئے۔ وہ گلیاں جنھوں نے فسادیوں کو اپنے اندر ایسے سما لیا جیسے وہ اچانک کہیں سے اٹھ کھڑے ہوئے ہوں، تباہی مچائی اور پھر انہی گلیوں کی خاک میں مل گئے۔
میرے لیے اب اس تنہائی، اس تنازعے، ٹوٹے ہوئے شیشوں اور ان سب چیزوں کا بوجھ اٹھانا مشکل ہو گیا تھا جو میرے حواس پر سوار ہو چکی تھیں۔
اس جگہ سے نکلتے ہوئے میں نے ایک سائن بورڈ دیکھا جس پر لکھا تھا ‘خوبصورت لوگ ہمیشہ صحت مند نہیں ہوتے۔ صحت مند لوگ ہمیشہ خوبصورت ہوتے ہیں۔‘