کورونا وائرس: جب وینٹی لیٹر کے لیے مریض کا چناؤ کرنا پڑے 

0403202033

جب بھی نیویارک سٹی کے کوئینز نامی علاقے میں ایلم ہرسٹ ہسپتال میں مائیک پر آواز گونجتی ہے تو ’ٹیم 700‘ الرٹ ہو جاتی ہے۔ ایسے میں فوری طور پر ایک ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی ہارٹ اٹیک کا سامنا کر رہا ہے۔
ایک نوجوان ڈاکٹر نے بتایا کہ عام حالات میں یہ شاید ہفتے میں ایک بار ہوتا ہے۔ گذشتہ روز 12 گھنٹوں پر مشتمل ایک شفٹ کے دوران ’ٹیم 700 ‘ کی نو بار اناؤنسمینٹ ہوئی اور کوئی ایک بھی مریض زندہ نہیں بچ پایا۔

وہ شعبہ ایمرجنسی کے عملے میں شامل ہیں اور ان کی ٹریننگ میں بھی وہ کچھ ایسا نہیں سیکھ سکی تھیں کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اس وبا کے مرکز بنے اس مقام پر اس قسم کے ہولناک مناظر دیکھتی۔
ہسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے جاری ہونے والی حالیہ ای میل کے مطابق یہ ہسپتال جس میں 282 مریضوں کے لیے بستروں کا انتظام ہے میں اس وقت 500 مریض زیر علاج ہیں۔

اس وبا کے پھیلنے کے ابتدائی مراحل میں یہ پریشانی تھی کہ ایلم ہرسٹ کے علاقے میں کون مدد کرے گا۔ اب وہاں ہر ایک بیمار ہے۔ حقیقتاً بیمار۔ نصف مریض ایسے ہیں جن کے کوائف نہیں ہیں اور جو انگریزی نہیں بول سکتے۔ وہ اپنی اور اپنے خاندان کی مدد نہیں کر سکتے۔اگرچہ اسے پہلا کووڈ 19 ہسپتال قرار نہیں دیا گیا۔ ہاں یہاں شعبہ ایمرجنسی اب بھی کام کر رہا ہے لیکن یہاں جو مریض داخل تھے انھیں یہاں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ یہاں صرف ان لوگوں کو بستر دیا گیا ہے جنھیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے۔

تقریباً ہر ایک جو بھی ایمرجنسی روم میں آیا کو نلکلی لگائی گئی اور وینٹی لیٹر پر رکھا گیا۔ یہ وہ کام ہے جو عموماً انتہائی نگہداشت، آئی سی یو میں ہوتا ہے مگر اب یہ ہر جانب ہو رہا تھا۔ ان لوگوں کو بلڈ پریشر کا دباؤ برقرار رکھنے کے لیے ’ پریسرز‘ کی ضرورت تھی۔ یہ کام عموماً ایک مخصوص تربیت کی حامل نرس کرتی ہے لیکن وہاں نرسز یہ کرنے کے لیے نہیں تھی۔ اس لیے جو لوگ غیر تربیت یافتہ تھے وہ یہ کام کر رہے تھے۔

’میں کیسے پریشان نہ ہوں جب مریضوں کو وہ دیکھ بھال کی سہولت نہ ملے جس کی انھیں ضرورت ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ یہ فقط بوڑھے ہی نہیں ہیں جو اس وائرس کا شکار ہو رہے ہیں۔
’وہاں 30 اور 40 برس کے مریض بھی ہیں جن میں اس مرض کی پہلے سے علامات بھی نہیں تھیں، اسی طرح ہمارے پاس 90 سالہ شخص بھی ہے جنھیں ایک دن اس وقت ایمرجنسی میں لایا گیا جب وہ گھر میں گر گئے تھے۔ ان کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی۔ لیکن ان کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ بھی مثبت آیا تھا حالانکہ ان میں بھی اس مرض کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔‘

ایک ایسا وائرس ہے جو غیر واضح ہے۔اس ہسپتال کو اس سے دوگنّے وینٹی لیٹرز دیے گئے جو اس کے پاس پہلے سے موجود تھے۔وہ سب پہلے ہی استعمال ہو رہے ہیں اور مزید کی ضرورت ہے۔ سب زیر استعمال ہیں اور اس وبا کے مزید بڑھنے کے عمل میں ابھی ہفتوں لگیں گے۔ اور وہ ابھی ہی جو صورتحال بتا رہی ہیں اس میں ایسا ہے کہ سب لوگوں کو وینٹی لیٹر کی سہولت مسیر نہیں ہے۔
میری ایک نوجوان ڈاکٹر سے بات ہوئی۔ وہ اس وقت بارہ گھنٹے کی شفٹ ختم کر کے گھر آئی تھیں۔ ہماری ایک باہمی دوست کے ذریعے بات ہوئی۔ انھوں نے مجھے کہا کہ وہ مجھے اپنے کپڑے دھونے کے لیے مشین میں ڈالنے، اپنے لیے کھانا بنانے اور کچھ کام کرنے کے بعد فون کریں گی۔ ان کی روزمرہ کی زندگی اس شدید تناؤ کے ساتھ چلتی ہے۔ جہاں زندگی اور موت جیسا ماحول ہے۔

’میں حوفزدہ نہیں ہوں کہ میں بیمار پڑ جاؤں گی۔ میں ٹھیک ہو جاؤں گی۔ میں جوان ہوں صحت مند ہو۔ میرے گلے میں گذشتہ ہفتے کچھ خراش تھی۔ لیکن جو سینئر طبّی عملہ ہے۔ جن کی ذاتی صحت کی ہسٹری پیچیدہ ہے وہ بہت پریشان ہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ درجنوں ساتھی بیمار ہو چکے ہیں۔نیویارک سٹی میں ساڑھے 47 ہزار افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔ لیکن یہ وبا ایک طرح سے نہیں پھیلی۔
اہلم ہرسٹ اور کورونا نیویارک سے آگے ہیں وہاں 31 مارچ کو مصدقہ کیسز بالترتیب 831 اور 947 تھے۔ نیو یارک ٹائمز کے ڈیٹا کے مطابق کوئینز میں کام کرنے والا طبقہ ہے اور وہاں ہر ایک لاکھ کی آبادی میں 616 مثبت کیسز تھے۔مین ہیٹن اور بروکلین میں ایک لاکھ مکینوں میں بالترتیب 376 اور 453 مریض تھے۔

عام حالات میں اگر آپ کسی مریض کو دیکھیں تو آپ سوچتے ہیں کہ وہ کسی متعدی بیماری کا شکار ہے تو آپ ذاتی حفاظت کا سامان، پی پی ای استعمال کرتے ہیں۔ اور جب آپ مریض کو دیکھ لیتے ہیں تو پھر آپ گاؤن اور ماسک اتار دیتے ہیں اور اسے ضائع کر دیا جاتا ہے۔
ایلم ہرسٹ میں آپ جب اپنی ڈیوٹی شروع کرتے ہیں تو پی پی ای پہنتے ہیں اور اسے پورا دن نہیں اتارتے۔ کیونکہ جس کو بھی آپ دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ تمام افراد متعدی بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔

اس نے کٹ پر پریشر کو کسی حد تک کم کیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ ہسپتال پہلا ہے جو کہ فرنٹ لائن پر ہے۔ اور اس کے بارے میں مشہور ہوا کہ یہاں سپلائی آ رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ ان کا این 95 ماسک کچھ روز پہلے گم ہو گیا تھا لیکن ہسپتال میں صورتحال اور خرابی کی جانب جا رہی ہے۔ کیا انھیں وہ کِٹ ملے گی جس کی انھیں ضرورت ہے۔
جیسے ہی انھوں نے مجھے بتایا کہ میں یہ سوچتی ہوں کہ اگر آپ گاڑی چلا رہے ہوں کسی پہاڑ پر اور بریکیں فیل ہو جائیں پھر آپ کے پاس وقت نہیں ہو گا کہ آپ اس پر سوچیں کہ زندگی کی کیا مشکلات ہیں بلکہ آپ صرف یہ کوشش کرتے ہیں کہ آپ محفوظ طور پر پہاڑ سے نیچے اتر آئیں۔

یہ خاتون پر سکون، پراعتماد اور اپنی عمر سے زیادہ سمجھدار ہیں۔ پھر انھوں نے تھوڑا بتایا کہ وہ کس قدر مشکل کام کر رہی ہیں۔ اور وہ یہ اعتراف کرتی ہیں کہ انھوں نے جو کیا اس میں بہت سا ایسا ہے جس پر بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
میرے لیے سب سے بڑی پیشانی وینٹی لیٹر کو کسی مریض کو دینے کے حوالے سے ہوتی تھی۔ لوگوں کو مرتے دیکھنا مسئلہ نہیں ہے۔ ہم موت کا سامنا کرنے کی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ نہ ہی یہ ہے کہ کتنے لوگ مر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کے صحت مند ہونے کے حوالے سے مایوس ہو جانا جو کہ ہم عام طور پر نہیں ہوتے۔

انھوں نے بتایا کہ ایک معمر مریض کو اولڈ ہوم سے لایا گیا۔ وہ پہلے ہی وینٹی لیٹر پر تھے۔ وہ طویل عرصے سے اس پر انحصار کر رہے تھے۔ ان کا روبہ صحت ہونے کا امکان بہتر نہیں رہا تھا۔ لیکن اس وقت وہ مریض کو نہیں بلکہ وینٹی لیٹر کو دیکھ سکتی تھی۔ ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ جب وہ آئے تو وہ وینٹی لیٹر کے لیے بے چین تھے۔ میں صرف یہ چاہتی تھی کہ انھیں وینٹی لیٹر سے ہٹا دوں اور اسے کسی اور کے لیے لے جانے دوں۔اس نوجوان خاتون نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اپنے کریئر کی اس سٹیج پر وہ خدا کا کردار ادا کر رہی ہو گی۔